EN हिंदी
طویل تر ہے سفر مختصر نہیں ہوتا | شیح شیری
tawil-tar hai safar muKHtasar nahin hota

غزل

طویل تر ہے سفر مختصر نہیں ہوتا

اختر امان

;

طویل تر ہے سفر مختصر نہیں ہوتا
محبتوں کا شجر بے ثمر نہیں ہوتا

پھر اس کے بعد کئی لوگ مل کے بچھڑے ہیں
کسی جدائی کا دل پر اثر نہیں ہوتا

ہر ایک شخص کی اپنی ہی ایک منزل ہے
کوئی کسی کا یہاں ہم سفر نہیں ہوتا

تمام عمر گزر جاتی ہے کبھی پل میں
کبھی تو ایک ہی لمحہ بسر نہیں ہوتا

یہ اور بات ہے وہ اپنا حال دل نہ کہے
کوئی بھی شخص یہاں بے خبر نہیں ہوتا

عجیب لوگ ہیں یہ اہل عشق بھی اخترؔ
کہ دل تو ہوتا ہے پر ان کا سر نہیں ہوتا