تصور میں سلام آتے رہیں گے
محبت کے پیام آتے رہیں گے
کمی ممکن نہیں ہے بام و در کی
نظر ماہ تمام آتے رہیں گے
نگاہوں سے ملیں گی جب نگاہیں
تو خود گردش میں جام آتے رہیں گے
کشش ان میں اگر ہوگی ذرا سی
پرندے زیر دام آتے رہیں گے
شب فرقت شب فرقت نہ ہوگی
تصور کچھ تو کام آتے رہیں گے
وقار شعر و فن بڑھتا رہے گا
اگر کچھ خوش کلام آتے رہیں گے
بجاجؔ ان کو جو روکے گا زمانہ
وہ خوابوں میں مدام آتے رہیں گے

غزل
تصور میں سلام آتے رہیں گے
اوم پرکاش بجاج