تصور میں کوئی آیا سکون قلب و جاں ہو کر
محبت مسکراتی ہے بہار جاوداں ہو کر
چمن میں جب کبھی جاتا ہوں ان کی یاد آتی ہے
تمنا چٹکیاں لیتی ہے پہلو میں جواں ہو کر
دل وحشت اثر کو ہوش جب آیا تو دیکھا ہے
ہوا کے دوش پر اڑتا ہے دامن دھجیاں ہو کر
صنوبر سا ہے قد نرگس سی آنکھیں پھول سا چہرہ
وہ میرے سامنے پھرتے ہیں اکثر گلستاں ہو کر
شراب و شعر و نغمہ کے سوا کیا چاہئے فیضیؔ
بلا سے زندگی جائے متاع رائیگاں ہو کر

غزل
تصور میں کوئی آیا سکون قلب و جاں ہو کر
فیضی نظام پوری