تصور کار فرما تھا کہ لذت تھی کہانی کی
اسی تصویر نے آنکھوں پہ جیسے حکمرانی کی
مری پرواز کا منظر ابھی تیروں سے چھلنی ہے
لہو میں تر بہ تر ہے داستاں نقل مکانی کی
لبوں پر برف جم جائے تو استفسار کیا معنی
کہ شور و غل فقط تمہید ہے شعلہ بیانی کی
قدم رکھتے ہی جیسے کھل گیا دلدل میں دروازہ
عجب کاری گری دیکھی یہاں مٹی میں پانی کی
دکھائی راہ ساحل کی انہیں پر پیچ موجوں نے
اسی طوفان نے کشتی کے حق میں بادبانی کی
بہت زرخیز مٹی ہے نظامؔ اپنے بدن میں بھی
ہوس نے پھول مہکائے لہو نے باغبانی کی

غزل
تصور کار فرما تھا کہ لذت تھی کہانی کی
نظام الدین نظام