ترک الفت میں بھی اس نے یہ روایت رکھی
روز ملنے کی پرانی وہی عادت رکھی
تو گیا ہے تو پلٹ کر نہیں پوچھا میں نے
ورنہ برسوں تری یادوں کی امانت رکھی
کل اچانک کوئی تصویر بنی کاغذ پر
مدتوں سب سے چھپا کر تیری صورت رکھی
وہ مقدر میں نہیں ہے تو اسی کے دل میں
کس نے ہر شے سے زیادہ چاہت رکھی
خود ہی ملتا ہے بچھڑتا ہے یشبؔ اپنے لیے
آنے جانے کی عجب اس نے سہولت رکھی

غزل
ترک الفت میں بھی اس نے یہ روایت رکھی
یشب تمنا