تنہائیوں کے درد سے رستا ہوا لہو
دیوار و در اداس ہیں ہر شے ہے زرد رو
خاموشیوں میں ڈوب گئی زندگی کی شام
آواز دے کے جانے کہاں چھپ گیا ہے تو
آنکھوں میں جاگتی ہی رہی نیند رات بھر
چلتی رہی خیال کے صحرا میں گرم لو
ساحل پہ ڈوبنے لگی آب رواں کی لو
برپا تھا زرد ریت کا طوفان چار سو
وادی میں نیلگوں سا دھواں رینگنے لگا
گھبرا کے دم نہ توڑ دے جھیلوں میں جستجو
مدت کے بعد لوٹ کے آیا جب اپنے گھر
اک عکس آئنہ میں یہ کہنے لگا کہ تو

غزل
تنہائیوں کے درد سے رستا ہوا لہو
رشید افروز