تنہائی سے بچاؤ کی صورت نہیں کروں
مر جاؤں کیا کسی سے محبت نہیں کروں
سوئے فلک ہوائی سفر ہے تو کیا ہوا
ڈر جاؤں ماہتاب کی صورت نہیں کروں
آنکھیں ہیں یا شراب کے ساغر بھرے ہوئے
پی جاؤں کیا خیال شریعت نہیں کروں
قبضے میں ان کے شہر طلسمات ہی سہی
کھو جاؤں کیا خدا کی عبادت نہیں کروں
جب طے ہوا کہ روشنی پروردگار ہے
پہلو بچاؤں اس کی اطاعت نہیں کروں
بزم سخن طراز میں ناکام ہوں تو کیا
چلاؤں اپنے فن کی حفاظت نہیں کروں
وہ آ گیا کمالؔ کی قیمت کے آس پاس
بک جاؤں اپنے سچ کی حفاظت نہیں کروں
غزل
تنہائی سے بچاؤ کی صورت نہیں کروں
احمد کمال پروازی