EN हिंदी
تنہائی سے بچاؤ کی صورت نہیں کروں | شیح شیری
tanhai se bachaw ki surat nahin karun

غزل

تنہائی سے بچاؤ کی صورت نہیں کروں

احمد کمال پروازی

;

تنہائی سے بچاؤ کی صورت نہیں کروں
مر جاؤں کیا کسی سے محبت نہیں کروں

سوئے فلک ہوائی سفر ہے تو کیا ہوا
ڈر جاؤں ماہتاب کی صورت نہیں کروں

آنکھیں ہیں یا شراب کے ساغر بھرے ہوئے
پی جاؤں کیا خیال شریعت نہیں کروں

قبضے میں ان کے شہر طلسمات ہی سہی
کھو جاؤں کیا خدا کی عبادت نہیں کروں

جب طے ہوا کہ روشنی پروردگار ہے
پہلو بچاؤں اس کی اطاعت نہیں کروں

بزم سخن طراز میں ناکام ہوں تو کیا
چلاؤں اپنے فن کی حفاظت نہیں کروں

وہ آ گیا کمالؔ کی قیمت کے آس پاس
بک جاؤں اپنے سچ کی حفاظت نہیں کروں