تن پر اس کے سیم فدا اور منہ پر مہ دیوانہ ہے
سر سے لے کر پاؤں تلک اک موتی کا سا دانہ ہے
ناز نیا انداز نرالا چتون آفت چال غضب
سینہ ابھرا صاف ستم اور چھب کا قہر یگانہ ہے
بانکی سج دھج آن انوٹھی بھولی صورت شوخ مزاج
نظروں میں کھل کھیل لگاوٹ آنکھوں میں شرمانا ہے
تن بھی کچھ گدرایا ہے اور قد بھی بڑھتا آتا ہے
کچھ کچھ حسن تو آیا ہے اور کچھ کچھ اور بھی آنا ہے
جب ایسا حسن قیامت ہو بیتاب نہ ہو دل کیونکہ نظیرؔ
جان پر اپنی کھلیں گے اک روز یہ ہم نے جانا ہے

غزل
تن پر اس کے سیم فدا اور منہ پر مہ دیوانہ ہے
نظیر اکبرآبادی