تماشہ اہل محبت یہ چار سو کرتے
دل و دماغ اور آنکھیں لہو لہو کرتے
وہ روشنی سے بھری جھیل کے کنارے پر
شکستہ روح، دریدہ بدن رفو کرتے
ہمارے بارے میں تفتیش کرنا چاہتے تھے
تو جان جان پرندوں سے گفتگو کرتے
جمال و حسن سے لبریز جب زمانہ ہے
تری بساط ہی کیا تیری آرزو کرتے
زمیں پہ چاند ستارے بچھا کے اے ہاشمؔ
فلک پہ پھول سجانے کی آرزو کرتے
غزل
تماشہ اہل محبت یہ چار سو کرتے
ہاشم رضا جلالپوری