تمام عمر رواں کا مال حیرت ہے
جواب جس کا نہیں وہ سوال حیرت ہے
دکان چشم یہاں بے مثال حیرت ہے
اس آئنے کا سراسر کمال حیرت ہے
یہ زندگی تو ترے ساتھ ساتھ ختم ہوئی
جو مجھ میں باقی ہے وہ لا زوال حیرت ہے
وہ خواب ایسے تھے تعبیر ان کی تھی ہی نہیں
رمیدہ ہجر گریزاں وصال حیرت ہے
ہوئی طلسم زدہ جب یہ آئنے نے کہا
یہاں تو سارے کا سارا جمال حیرت ہے
عدم وجود عدم اف یہ سلسلے کیسے
میں لٹ گئی ہوں مگر مالا مال حیرت ہے
یہ کائنات ہے حیران اپنے ہونے پہ
قدم قدم پہ یہاں محو حال حیرت ہے
غزل
تمام عمر رواں کا مال حیرت ہے
تسنیم عابدی