تمام دنیا کا لخت جگر بنا ہوا تھا
وہ آدمی جو مرا درد سر بنا ہوا تھا
اسے تلاش رہی ہیں مری اداس آنکھیں
جو خواب رات کے پچھلے پہر بنا ہوا تھا
پہنچ کے کوچۂ جاناں میں آ گیا باہر
مرے وجود کے اندر جو ڈر بنا ہوا تھا
کمال عشق نے میرے کیا ہے زیر اسے
کسی کا حسن جو کل تک زبر بنا ہوا تھا
اترتی کیسے سکوں کی وہاں کوئی چڑیا
محل جو حرص کی بنیاد پر بنا ہوا تھا
بنا دیا اسے انسان تیری قربت نے
ترے فراق میں جو جانور بنا ہوا تھا
یہ اس کا شوق نہیں اس کی انکساری تھی
وسیع ہو کے بھی جو مختصر بنا ہوا تھا
پہنچ گیا ہے جوانی سے اب بڑھاپے تک
وہ ایک دکھ جو شریک سفر بنا ہوا تھا
ہوس کے چاک کی مٹی جوان تھی جب تک
تمام شہر یہاں کوزہ گر بنا ہوا تھا
وہ جانتا تھا مرے ان کہے دکھوں کا علاج
مگر وہ فیضؔ میاں بے خبر بنا ہوا تھا

غزل
تمام دنیا کا لخت جگر بنا ہوا تھا
فیض خلیل آبادی