تمام بھیڑ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں
تماش بین وہ چہرہ اچھل کے دیکھتے ہیں
نزاکتوں کا یہ عالم کہ رونمائی کی رسم
گلاب باغ سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں
تو لا جواب ہے سب اتفاق رکھتے ہیں
مگر یہ شہر کے فانوس جل کے دیکھتے ہیں
اسے میں اپنے شبستاں میں چھو کے دیکھتا ہوں
وہ چاند جس کو سمندر اچھل کے دیکھتے ہیں
جو کھو گیا ہے کہیں زندگی کے میلے میں
کبھی کبھی اسے آنسو نکل کے دیکھتے ہیں
جو روز دامن صد چاک سیتے رہتے ہیں
تمہیں وہ عید پہ کپڑے بدل کے دیکھتے ہیں
غزل
تمام بھیڑ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں
احمد کمال پروازی