تڑپتی ہیں تمنائیں کسی آرام سے پہلے
لٹا ہوگا نہ یوں کوئی دل ناکام سے پہلے
یہ عالم دیکھ کر تو نے بھی آنکھیں پھیر لیں ورنہ
کوئی گردش نہیں تھی گردش ایام سے پہلے
گرا ہے ٹوٹ کر شاید مری تقدیر کا تارا
کوئی آواز آئی تھی شکست جام سے پہلے
کوئی کیسے کرے دل میں چھپے طوفاں کا اندازہ
سکوت مرگ چھایا ہے کسی کہرام سے پہلے
نہ جانے کیوں ہمیں اس دم تمہاری یاد آتی ہے
جب آنکھوں میں چمکتے ہیں ستارے شام سے پہلے
سنے گا جب زمانہ میری بربادی کے افسانے
تمہارا نام بھی آئے گا میرے نام سے پہلے
غزل
تڑپتی ہیں تمنائیں کسی آرام سے پہلے
قتیل شفائی