تبصرہ یوں نہ مرے حال پہ اتنا ہوتا
اس کو نزدیک سے دنیا نے جو دیکھا ہوتا
کوئی مرتے ہوئے لمحوں کا مسیحا ہوتا
کرب تنہائی کا احساس نہ اتنا ہوتا
یہ جو آہٹ کی طرح ساتھ مرے رہتا ہے
بن کے تصویر کبھی سامنے آیا ہوتا
دے گیا جو مجھے تپتے ہوئے لمحوں کا گداز
کاش وہ درد مرے واسطے تنہا ہوتا
میں کہ جیسا ہوں بہ ہر حال نظر میں آتا
مجھ کو احساس کی نظروں سے تو دیکھا ہوتا
ایسا لگتا ہے دوبارا نہ ملے گا مجھ سے
اس طرح ٹوٹ کے وہ یاد نہ آیا ہوتا
کیا ملا جاگ کے بتلائیے شبنمؔ صاحب
اس سے اچھا تھا کوئی خواب ہی دیکھا ہوتا

غزل
تبصرہ یوں نہ مرے حال پہ اتنا ہوتا
شبنم نقوی