تب کے کیا حاصل وفا ہوگا
عشق جب طالب سزا ہوگا
میں ہی شاید نہ سن سکا یا رب
اس نے کچھ تو مجھے کہا ہوگا
خود پرستی ہو جس کی فطرت میں
وہ تو بے شرم بے حیا ہوگا
پھر محبت نہ کرنا چاہو گے
میرا فسانہ گر سنا ہوگا
غم مرے ساتھ تھا ہمیشہ سے
اب کے وہ بھی ذرا خفا ہوگا
خواہشیں اور بڑھتی جائیں گی
کیا یہی حاصل دعا ہوگا
کس کہ آہٹ سنائی دیتی ہے
زخم شاید کوئی نیا ہوگا
تھی اسی دم پہ تھوڑی رعنائی
اب خیال اس کا بھی گیا ہوگا
کیسا ہر سمت یہ اندھیرا ہے
چاند شاید بجھا بجھا ہوگا
کیا کہا ظلم اس کی فطرت ہے
اس کو جانے دے وہ خدا ہوگا
آندھیوں کو بھی کر رہا روشن
کیسا وہ سرپھرا دیا ہوگا
موت جس کو لگے ہے دشمن سی
ہر گھڑی ڈر کے وہ جیا ہوگا
موت کا خوف وہ نہیں رکھتا
ایک لمحہ بھی جو جیا ہوگا
اپنی ہستی مٹا سکوں نادمؔ
اس سے بڑھ کر جنون کیا ہوگا

غزل
تب کے کیا حاصل وفا ہوگا
سندیپ کول نادم