تعلق اس سے اگرچہ مرا خراب رہا
قسم سفر کی وہی ایک ہم رکاب رہا
سمجھ سکا نہ اسے میں قصور میرا ہے
کہ میرے سامنے تو وہ کھلی کتاب رہا
میں ایک لفظ بھی لیکن نہ پڑھ سکا اس کو
اگرچہ وہ بھی مرا شامل نصاب رہا
میں معرفت کے ہوں اب اس مقام پر کہ جہاں
کیا گناہ بھی تو خدشۂ ثواب رہا
حقیقتوں سے مفر چاہی تھی یشبؔ میں نے
پر اصل اصل رہا اور خواب خواب رہا

غزل
تعلق اس سے اگرچہ مرا خراب رہا
یشب تمنا