طالب خدا سے عدل کے خواہاں کرم کے ہیں
مظلوم ہم بتوں کے جفا و ستم کے ہیں
امید وار جاہ نہ طالب حشم کے ہیں
ہم بادشاہ کشور عشق صنم کے ہیں
دنیا سرا ہے ہم ہیں مسافر ٹھہر گئے
ملک بقا سے آئے ہیں عازم عدم کے ہیں
دل بھی جگر بھی جان بھی سینہ بھی عشق میں
یہ سب مکان صدمہ و درد و الم کے ہیں
طالب ہیں گنج وصل کے اک سمت میں سے یہ
احقرؔ تو آج پھیر میں گہری رقم کے ہیں

غزل
طالب خدا سے عدل کے خواہاں کرم کے ہیں
رادھے شیام رستوگی احقر