سورج سا بھی تارا ہو زمیں سی بھی زمیں ہو
ممکن ہے فلک پر کوئی تم سا بھی حسیں ہو
تردید جہالت کی سزا موت ہے چپ ہوں
اب کون یہاں کھول کے لب منکر دیں ہو
اس بات سے کافر کو بھی انکار نہیں ہے
وہ شخص پیمبر ہے جو صادق ہو امیں ہو
سنتا ہوں کئی دیر و کلیسا کے فسانے
اے کاش کسی بات کا مجھ کو بھی یقیں ہو
اڑتا پھروں گر چرخ پہ ہر رنج سے آزاد
یا رب یہی عالم مجھے فردوس بریں ہو
بے وجہ بھی دیکھا ہے پریشاں تمہیں حامدؔ
دیوانے بھی لگتے نہیں عاشق بھی نہیں ہو
غزل
سورج سا بھی تارا ہو زمیں سی بھی زمیں ہو
حامد سلیم