سورج کو کیا پتہ ہے کدھر دھوپ چاہئے
آنگن بڑا ہے اپنے بھی گھر دھوپ چاہئے
آئینے ٹوٹ ٹوٹ کے بکھرے ہیں چار سو
ڈھونڈیں گے عکس عکس مگر دھوپ چاہئے
بھیگے ہوئے پروں سے تو اڑنے نہ پائیں گے
کاٹوں نہ ان پرندوں کے پر دھوپ چاہئے
ہم سے دریدہ پیرہن و جاں کے واسطے
یاقوت چاہئے نہ گہر دھوپ چاہئے
سورج نہ جانے کون سی وادی میں چھپ گیا
اور چیختی پھرے ہے سحر دھوپ چاہئے
اک نیند ہے کہ آنکھ سے لگ کر نکل گئی
اب رات کا طویل سفر دھوپ چاہئے
پانی پہ چاہے نقش بنائے کوئی متینؔ
کاغذ پہ میں بناؤں مگر دھوپ چاہئے

غزل
سورج کو کیا پتہ ہے کدھر دھوپ چاہئے
غیاث متین