EN हिंदी
سرور عشق کی مستی کہاں ہے سب کے لیے | شیح شیری
surur-e-ishq ki masti kahan hai sab ke liye

غزل

سرور عشق کی مستی کہاں ہے سب کے لیے

عظیم قریشی

;

سرور عشق کی مستی کہاں ہے سب کے لیے
وہ مجھ میں جذب ہوا آ کے ایک شب کے لیے

وہ ایک کرب‌ حسیں جو مجھے ہوا ہے عطا
نہ تیرے رخ کے لیے ہے نہ تیرے لب کے لیے

کبھی تو الٹے سر عام وہ نقاب اپنی
ترس رہے ہیں سبھی بادۂ‌ عنب کے لیے

ترے وصال کی کب آرزو رہی دل کو
کہ ہم نے چاہا تجھے شوق بے سبب کے لیے

دل حزیں کہ دو عالم نہیں بہا جس کی
لٹایا میں نے اسے تیری ایک چھب کے لیے

وہی کرن جو سر چرخ رہ گئی تنہا
وہ سوگ بن گئی تاروں کے ہر طرب کے لیے

عظیمؔ عشق شہ دو سرا بسا دل میں
وہی عجم کے لیے ہے وہی عرب کے لیے