EN हिंदी
سرخ چشم اتنی کہیں ہوتی ہے بیداری سے | شیح شیری
surKH chashm itni kahin hoti hai bedari se

غزل

سرخ چشم اتنی کہیں ہوتی ہے بیداری سے

نواب محمد یار خاں امیر

;

سرخ چشم اتنی کہیں ہوتی ہے بیداری سے
لہو اترا ہے تری آنکھوں میں خوں خواری سے

وقت رخصت کے ترے اے مرے جی کے دشمن
تھام تھام آج رکھا دل کو میں کس خواری سے

بس میں آیا جو تمہارے اسے چاہو سو کرو
کیا ستم آدمی سہتا نہیں لاچاری سے

کس نے نظروں میں خدا جانے اسے مل ڈالا
نرگس آج آنکھ اٹھاتی نہیں بیماری سے

کیا کہوں ولولۂ شوق کو تیرے میں امیرؔ
گھر میں جاتے ہیں پرائے تو خبرداری سے