EN हिंदी
سنا ہے زخمی تیغ نگہ کا دم نکلتا ہے | شیح شیری
suna hai zaKHmi-e-tegh-e-nigah ka dam nikalta hai

غزل

سنا ہے زخمی تیغ نگہ کا دم نکلتا ہے

حیرت الہ آبادی

;

سنا ہے زخمی تیغ نگہ کا دم نکلتا ہے
ترا ارمان لے اے قاتل عالم نکلتا ہے

نہ آنکھوں میں مروت ہے نہ جائے رحم ہے دل میں
جہاں میں بے وفا معشوق تم سا کم نکلتا ہے

کہا عاشق سے واقف ہو تو فرمایا نہیں واقف
مگر ہاں اس طرف سے ایک نامحرم نکلتا ہے

محبت اٹھ گئی سارے زمانے سے مگر اب تک
ہمارے دوستوں میں باوفا اک غم نکلتا ہے

پتا قاصد یہ رکھنا یاد اس قاتل کے کوچے سے
کوئی نالاں کوئی بسمل کوئی بے دم نکلتا ہے