EN हिंदी
سنا بھی کبھی ماجرا درد و غم کا کسی دل جلے کی زبانی کہو تو | شیح شیری
suna bhi kabhi majra dard-o-gham ka kisi dil-jale ki zabani kaho to

غزل

سنا بھی کبھی ماجرا درد و غم کا کسی دل جلے کی زبانی کہو تو

سائل دہلوی

;

سنا بھی کبھی ماجرا درد و غم کا کسی دل جلے کی زبانی کہو تو
نکل آئیں آنسو کلیجہ پکڑ لو کروں عرض اپنی کہانی کہو تو

تمہیں رنگ مے شیخ مرغوب کیا ہے گلابی ہو یا زعفرانی کہو تو
پلائے کوئی ساقئ حور پیکر مصفا کشیدہ پرانی کہو تو

تمنائے دیدار ہے حسرت دل کہ تم جلوہ فرما ہو میں آنکھیں سینکوں
نہ کہہ دینا موسیٰ سے جیسے کہا تھا مری عرض پر لن ترانی کہو تو

وفا پیشہ عاشق نہیں دیکھا تم نے مجھے دیکھ لو جانچ لو آزما لو
تمہارے اشارے پہ قربان کر دوں ابھی مایۂ زندگانی کہو تو

کہاں میں کہاں داستاں کا تقاضا مرے ضبط درد نہاں کا ہے کہنا
پھر اس پر یہ تاکید بھی ہے برابر نہ کہنا پرانی کہانی کہو تو

مرے نامۂ شوق کی سطر میں ہے جگہ اک جو سادہ وہ مہمل نہیں ہے
میں ہو جاؤں خدمت میں حاضر ابھی خود بتانے کو اس کے معانی کہو تو