EN हिंदी
صلح و پیکار بھی ہو اور رفاقت بھی رہے | شیح شیری
sulh-o-paikar bhi ho aur rifaqat bhi rahe

غزل

صلح و پیکار بھی ہو اور رفاقت بھی رہے

سید امین اشرف

;

صلح و پیکار بھی ہو اور رفاقت بھی رہے
خوں میں اجداد کی تھوڑی سی شرافت بھی رہے

ذہن خوابیدہ کو مصروف عمل رکھنا ہے
کیا ضروری کہ اشاروں میں صراحت بھی رہے

یہ تو ممکن ہے فقط گوشۂ تنہائی میں
شور بازار نہ ہو اور قیامت بھی رہے

روشنی کے لئے درکار ہے بے تابئ خاک
چاند لیکن ہنر شب سے عبارت بھی رہے

سنتے آئے ہیں محبت ہے عبادت اے دوست
کبھی ہنس بول کے بیٹھو تو عبادت بھی رہے

شاعری نغمہ گری ساعت حیرانی میں
تازہ کاری ہو مگر پاس روایت بھی رہے