سلیمان سخن تو خیر کیا ہوں
یکے از شہر یاران سبا ہوں
وہ جب کہتے ہیں فردا ہے خوش آیند
عجب حسرت سے مڑ کر دیکھتا ہوں
فراق اے ماں کہ میں زینہ بہ زینہ
کلی ہوں گل ہوں خوشبو ہوں صبا ہوں
سحر اور دوپہر اور شام اور شب
میں ان لفظوں کے معنی سوچتا ہوں
کہاں تک کاہلی کے طعن سنتا
تھکن سے چور ہو کر گر پڑا ہوں
ترقی پر مبارک باد مت دو
رفیقو میں اکیلا رہ گیا ہوں
کبھی روتا تھا اس کو یاد کر کے
اب اکثر بے سبب رونے لگا ہوں
سنے وہ اور پھر کر لے یقیں بھی
بڑی ترکیب سے سچ بولتا ہوں
غزل
سلیمان سخن تو خیر کیا ہوں
انور شعور