سلگتی رت تھی پہ کب تو بھی پاس ایسا تھا
کہ تیرے قرب کا منظر بھی پیاس ایسا تھا
بچھڑ کے تجھ سے تو خود سے بھی شرم آتی ہے
ترا وجود بدن پر لباس ایسا تھا
خود اپنے دل کی صدا تیری دستکوں سی لگی
گماں میں تھا تیرا آنا قیاس ایسا تھا
شکست و ریخت کی سختی کو کیسے جھیل گیا
ملائمت میں جو پیکر کپاس ایسا تھا
جہاں کہیں بھی گیا ہوں تو گھر کو لوٹ آیا
اداسیوں کا یہ ماحول راس ایسا تھا
فصیل شہر گری اور غنیم کے ڈر سے
کوئی نہ چین سے سویا ہراس ایسا تھا
پڑھیں تو خود کو زمیں بوس پائیں کج دستار
مری کتاب میں اک اقتباس ایسا تھا
غزل
سلگتی رت تھی پہ کب تو بھی پاس ایسا تھا
خان محمد خلیل