EN हिंदी
سلگتی رت تھی پہ کب تو بھی پاس ایسا تھا | شیح شیری
sulagti rut thi pa kab tu bhi pas aisa tha

غزل

سلگتی رت تھی پہ کب تو بھی پاس ایسا تھا

خان محمد خلیل

;

سلگتی رت تھی پہ کب تو بھی پاس ایسا تھا
کہ تیرے قرب کا منظر بھی پیاس ایسا تھا

بچھڑ کے تجھ سے تو خود سے بھی شرم آتی ہے
ترا وجود بدن پر لباس ایسا تھا

خود اپنے دل کی صدا تیری دستکوں سی لگی
گماں میں تھا تیرا آنا قیاس ایسا تھا

شکست و ریخت کی سختی کو کیسے جھیل گیا
ملائمت میں جو پیکر کپاس ایسا تھا

جہاں کہیں بھی گیا ہوں تو گھر کو لوٹ آیا
اداسیوں کا یہ ماحول راس ایسا تھا

فصیل شہر گری اور غنیم کے ڈر سے
کوئی نہ چین سے سویا ہراس ایسا تھا

پڑھیں تو خود کو زمیں بوس پائیں کج دستار
مری کتاب میں اک اقتباس ایسا تھا