سلگنا اندر اندر مصرعۂ تر سوچتے رہنا
بدن پر ڈال کر زخموں کی چادر سوچتے رہنا
نہیں کم جاں گسل یہ مرحلہ بھی خود شناسی کا
کہ اپنے ہی معانی لفظ بن کر سوچتے رہنا
زباں سے کچھ نہ کہنا باوجود تاب گویائی
کھلی آنکھوں سے بس منظر بہ منظر سوچتے رہنا
کسی لمحے تو خود سے لا تعلق بھی رہو لوگو
مسائل کم نہیں پھر زندگی بھر سوچتے رہنا
چراغ زندگی ہے یا بساط آتش رفتہ
جلا کر روشنی دہلیز جاں پر سوچتے رہنا
عجب شے ہے فضاؔ ذہن و نظر کی یہ اسیری بھی
مسلسل دیکھتے رہنا برابر سوچتے رہنا
غزل
سلگنا اندر اندر مصرعۂ تر سوچتے رہنا
فضا ابن فیضی