سکوت مرگ میں کیوں راہ نغمہ گر دیکھوں
میں خود ہی ساز کی مانند ٹوٹ کر دیکھوں
مرے دیار ترے شہر ہیں کہ صحرا ہیں
میں ایک طرح کا منظر نگر نگر دیکھوں
وہی ہوں عارض و ابرو و چشم و لب پھر بھی
ہر ایک چہرے پہ اک چہرۂ دگر دیکھوں
ضیائے نجم و مہ و مہر و کہکشاں سے الگ
عجیب روشنیاں تجھ کو دیکھ کر دیکھوں
مری کمی تجھے محسوس ہو رہی تھی جہاں
وہیں پہنچ کے تری راہ عمر بھر دیکھوں
غبار راہ نمائی سے اٹ گئی ہے فضا
ترس گیا ہوں کہ راہوں کو اک نظر دیکھوں
تری شہی کی ہوس میں ہے میری جاں کا زیاں
میں تیرے تاج کو دیکھوں کہ اپنا سر دیکھوں
نہ پوچھ حرف تمنا کی وسعتیں صادقؔ
چلے جو بات تو صدیاں بھی مختصر دیکھوں

غزل
سکوت مرگ میں کیوں راہ نغمہ گر دیکھوں
صادق نسیم