EN हिंदी
سکوں نہ تھا مگر اتنا بھی انتشار نہ تھا | شیح شیری
sukun na tha magar itna bhi intishaar na tha

غزل

سکوں نہ تھا مگر اتنا بھی انتشار نہ تھا

ناز قادری

;

سکوں نہ تھا مگر اتنا بھی انتشار نہ تھا
ہمارے چاروں طرف خوف کا حصار نہ تھا

تمام عمر خزاں میں جھلستے گزری ہے
ہمارے سر پہ کبھی سایۂ بہار نہ تھا

رہا ہمیشہ کسی اور کے تصرف میں
خود اپنے دل پہ کبھی اپنا اختیار نہ تھا

ہر ایک ہاتھ اٹھائے ہوئے تھا یوں پتھر
کہ جیسے شہر میں کوئی گناہ گار نہ تھا

امیر شہر کے چہرے کے داغ دھبے تھے
فصیل شہر پہ چسپاں وہ اشتہار نہ تھا

ہزار دفتر معنی کھنگال ڈالے نازؔ
مگر کہیں بھی کوئی حرف اعتبار نہ تھا