سکون دل تو کہاں راحت نظر بھی نہیں
یہ کیسی بزم ہے جس میں ترا گزر بھی نہیں
بھٹک رہا ہے زمانہ گھنے اندھیرے میں
وہ رات ہے جسے اندیشۂ سحر بھی نہیں
نہ جانے کون سی منزل کو لے چلے ہم کو
وہ ہم سفر جو حقیقت میں ہم سفر بھی نہیں
تری نگاہ کا دل کو یقیں سا ہے ورنہ
سنی ہے بات کچھ ایسی کہ معتبر بھی نہیں
غزل
سکون دل تو کہاں راحت نظر بھی نہیں
قتیل شفائی