سخن وری ہمیں کب تجربے سے آئی ہے
زباں میں چاشنی دل ٹوٹنے سے آئی ہے
جدھر سے میرا بدن دھوپ چاٹ کر گزرا
ہوائے سرد اسی راستے سے آئی ہے
تڑپتا میں ہوں پسینہ ہے اس کے ماتھے پر
شکست دل کی صدا آئنے سے آئی ہے
کھلا ثبوت ہے یہ دشمنوں کے شب خوں کا
کہ دھول ٹھہرے ہوئے قافلے سے آئی ہے
سفر میں ساتھ مرا اور کوئی کیا دیتا
ہوا بھی میری طرف سامنے سے آئی ہے
سحر نے مجھ کو مظفرؔ نہیں کیا صیقل
مری نظر میں چمک رت جگے سے آئی ہے

غزل
سخن وری ہمیں کب تجربے سے آئی ہے
مظفر وارثی