EN हिंदी
صبح سویرے خوشبو پنگھٹ جائے گی | شیح شیری
subh-sawere KHushbu panghaT jaegi

غزل

صبح سویرے خوشبو پنگھٹ جائے گی

عزیز نبیل

;

صبح سویرے خوشبو پنگھٹ جائے گی
ہر جانب قدموں کی آہٹ جائے گی

سارے سپنے باندھ رکھے ہیں گٹھری میں
یہ گٹھری بھی اوروں میں بٹ جائے گی

کیا ہوگا جب سال نیا اک آئے گا؟
جیون ریکھا اور ذرا گھٹ جائے گی

اور بھلا کیا حاصل ہوگا صحرا سے
دھول مری پیشانی پر اٹ جائے گی

کتنے آنسو جذب کرے گی چھاتی میں
یوں لگتا ہے دھرتی اب پھٹ جائے گی

ہولے ہولے صبح کا آنچل پھیلے گا
دھیرے دھیرے تاریکی چھٹ جائے گی

نقارے کی گونج میں آخر کار نبیلؔ
سناٹے کی بات یوں ہی کٹ جائے گی