صبح کا افسانہ کہہ کر شام سے
کھیلتا ہوں گردش ایام سے
ان کی یاد ان کی تمنا ان کا غم
کٹ رہی ہے زندگی آرام سے
عشق میں آئیں گی وہ بھی ساعتیں
کام نکلے گا دل ناکام سے
لاکھ میں دیوانۂ رسوا سہی
پھر بھی اک نسبت ہے تیرے نام سے
صبح گلشن دیکھیے کیا گل کھلائے
کچھ ہوا بدلی ہوئی ہے شام سے
ہائے میرا ماتم تشنہ لبی
شیشہ مل کر رو رہا ہے جام سے
بے خودی پر شاید اس کا بس نہیں
جوش آ جاتا ہے ان کے نام سے
ہر نفس محسوس ہوتا ہے شکیلؔ
آ رہے ہیں نامہ و پیغام سے
غزل
صبح کا افسانہ کہہ کر شام سے
شکیل بدایونی