سوچتے رہنا یہی غم خوار سے ہو کر الگ
کوئی تنہا رہ گیا انصارؔ سے ہو کر الگ
کاتب تقدیر نے لکھنا تھا جو وہ لکھ دیا
اب کہاں جاؤں صلیب و دار سے ہو کر الگ
ایک لمحے میں اتر جائے گا برسوں کا خمار
کیا کرو گے اپنے ہی کردار سے ہو کر الگ
سوچ میں ڈوبا ہوا ہوں میں عمارت کے قریب
گر پڑی کیوں چھت در و دیوار سے ہو کر الگ
یوں بظاہر کر رہا ہے وہ تعلق سے گریز
جی نہیں سکتا مگر انصارؔ سے ہو کر الگ

غزل
سوچتے رہنا یہی غم خوار سے ہو کر الگ
قاضی انصار