EN हिंदी
سوچنے کا بھی نہیں وقت میسر مجھ کو | شیح شیری
sochne ka bhi nahin waqt mayassar mujhko

غزل

سوچنے کا بھی نہیں وقت میسر مجھ کو

بسملؔ  عظیم آبادی

;

سوچنے کا بھی نہیں وقت میسر مجھ کو
اک کشش ہے جو لئے پھرتی ہے در در مجھ کو

اپنا طوفاں نہ دکھائے وہ سمندر مجھ کو
چار قطرے نہ ہوئے جس سے میسر مجھ کو

عمر بھر دیر و حرم نے دئے چکر مجھ کو
بے کسی کا ہو برا لے گئی گھر گھر مجھ کو

شکر ہے رہ گیا پردہ مری عریانی کا
خاک کوچے کی ترے بن گئی چادر مجھ کو

چپ رہوں میں تو خموشی بھی گلہ ہو جائے
آپ جو چاہیں وہ کہہ دیں مرے منہ پر مجھ کو

خاک چھانا کئے ہم قافلے والوں کے لئے
قافلے والوں نے دیکھا بھی نہ مڑ کر مجھ کو

آپ ظالم نہیں، ظالم ہے مگر آپ کی یاد
وہی کمبخت ستاتی ہے برابر مجھ کو

انقلابات نے کچھ ایسا پریشان کیا
کہ سجھائی نہیں دیتا ہے ترا در مجھ کو

جرأت شوق تو کیا کچھ نہیں کہتی لیکن
پاؤں پھیلانے نہیں دیتی ہے چادر مجھ کو

مل گئی تشنگیٔ شوق سے فرصت تا عمر
اپنے ہاتھوں سے دیا آپ نے ساغر مجھ کو

اب مرا جذبۂ توفیق ہے اور میں بسملؔ
خضر گم ہو گئے رستے پہ لگا کر مجھ کو