EN हिंदी
سوچ کی لہروں کا مجمع ٹھیک ہے | شیح شیری
soch ki lahron ka majma Thik hai

غزل

سوچ کی لہروں کا مجمع ٹھیک ہے

ساجد اثر

;

سوچ کی لہروں کا مجمع ٹھیک ہے
زندگی کا مسئلہ باریک ہے

اشک ریزی کی مجھے عادت نہیں
غم برائے غم مری تضحیک ہے

ہم کو پھولوں کی سند مل جائے گی
خوشبوؤں کا مدرسہ نزدیک ہے

میرے زخموں کی انا ہے مختلف
تیری ہمدردی کا مرہم بھیک ہے

اپنی کوشش تو چمکتی ہے مگر
کامیابی کی گلی تاریک ہے

مسکراہٹ کے تعاقب میں اثرؔ
آنسوؤں کی دل شکن تحریک ہے