سوچ کی لہروں کا مجمع ٹھیک ہے
زندگی کا مسئلہ باریک ہے
اشک ریزی کی مجھے عادت نہیں
غم برائے غم مری تضحیک ہے
ہم کو پھولوں کی سند مل جائے گی
خوشبوؤں کا مدرسہ نزدیک ہے
میرے زخموں کی انا ہے مختلف
تیری ہمدردی کا مرہم بھیک ہے
اپنی کوشش تو چمکتی ہے مگر
کامیابی کی گلی تاریک ہے
مسکراہٹ کے تعاقب میں اثرؔ
آنسوؤں کی دل شکن تحریک ہے

غزل
سوچ کی لہروں کا مجمع ٹھیک ہے
ساجد اثر