ستم کا تیر جو ہے وہ تری کمان میں ہے
جو کہہ چکا ہوں میں وہ ہی مرے بیان میں ہے
میں خالی جسم ہی گھر سے نکل کے آیا ہوں
مری جو جان ہے اب بھی اسی مکان میں ہے
اسی لئے تو سبھی ہم پہ ہو گئے حاوی
یہ پھوٹ آپسی جو اپنے خاندان میں ہے
مری طرف جو یہ دیکھے تو اس سے بات کروں
یہ میرا دوست مگر جانے کس کے دھیان میں ہے
اگر میں چاہوں حریفوں پہ چوٹ بھی کر دوں
سخن کا تیر اک ایسا مری کمان میں ہے
غرور جسم پہ اور جان پہ ارے توبہ
نہ جانے مٹی کا پتلا یہ کس گمان میں ہے
مکاں پہ جا کے ذرا اس کے ٹھاٹ دیکھ نظیرؔ
گدا بھی آج کا یہ کتنی آن بان میں ہے
غزل
ستم کا تیر جو ہے وہ تری کمان میں ہے
نذیر میرٹھی