ستارہ ٹوٹ کے بکھرا اور اک جہان کھلا
عجیب رخ سے اندھیرے میں آسمان کھلا
طلوع صبح سے پہلے میں چھوڑ جاؤں گا
سیاہ رات کے پہلو میں اک مکان کھلا
پھر اس کے بعد کوئی راہ واپسی کی نہ تھی
ہوا کے دوش پہ اس طرح بادبان کھلا
میں جس کو ڈھونڈ رہا تھا اداس راتوں میں
ستارہ بن کے وہ پلکوں کے درمیان کھلا
نہ جانے کون مرے خواب لے گیا مجھ سے
کہ عمر بھر نہ کبھی پھر یہ سائبان کھلا
کبھی جو ہاتھ اٹھائے روشؔ دعا کے لیے
لبوں کے ساتھ سماعت کا بھی گمان کھلا
غزل
ستارہ ٹوٹ کے بکھرا اور اک جہان کھلا
شمیم روش