EN हिंदी
ستارہ تو کبھی کا جل بجھا ہے | شیح شیری
sitara to kabhi ka jal-bujha hai

غزل

ستارہ تو کبھی کا جل بجھا ہے

وزیر آغا

;

ستارہ تو کبھی کا جل بجھا ہے
یہ آنسو سا تری پلکوں پہ کیا ہے

درختوں کو تو چپ ہونا تھا اک دن
پرندوں کو مگر کیا ہو گیا ہے

دھنک دیوار کے رستے میں حائل
وگرنہ جست بھر کا فاصلہ ہے

اسے بند آنکھ سے میں دیکھ تو لوں
مگر پھر عمر بھر کا فاصلہ ہے

چلو اپنی بھی جانب اب چلیں ہم
یہ رستہ دیر سے سونا پڑا ہے