صرف اک حد نظر کو آسماں سمجھا تھا میں
آسمانوں کی حقیقت کو کہاں سمجھا تھا میں
خود ملا اور مل کے وہ اپنا پتہ بھی دے گیا
جبکہ ساری کاوشوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں
زندگی کا رنگ پہچانا گیا جینے کے بعد
دور سے اس رنگ کو اڑتا دھواں سمجھا تھا میں
مہربانوں سے ہمیشہ ہی رہے شکوے گلے
اور ہر نا مہرباں کو مہرباں سمجھا تھا میں
دے رہا تھا وہ صدائیں اور میں خاموش تھا
کشمکش کی اس گھڑی کو امتحاں سمجھا تھا میں
ہو گیا ہوں قتل بے رحمی سے ان کے سامنے
حیف جن لوگوں کو اپنا پاسباں سمجھا تھا میں
پاس سے دیکھا تو جانا کس قدر مغموم ہیں
ان گنت چہرے کہ جن کو شادماں سمجھا تھا میں

غزل
صرف اک حد نظر کو آسماں سمجھا تھا میں
چندر بھان خیال