سلسلے خواب کے اشکوں سے سنورتے کب ہیں
آج دریا بھی سمندر میں اترتے کب ہیں
وقت اک موج ہے آتا ہے گزر جاتا ہے
ڈوب جاتے ہیں جو لمحات ابھرتے کب ہیں
یوں بھی لگتا ہے تری یاد بہت ہے لیکن
زخم یہ دل کے تری یاد سے بھرتے کب ہیں
لہر کے سامنے ساحل کی حقیقت کیا ہے
جن کو جینا ہے وہ حالات سے ڈرتے کب ہیں
یہ الگ بات ہے لہجے میں اداسی ہے شمیمؔ
ورنہ ہم درد کا اظہار بھی کرتے کب ہیں

غزل
سلسلے خواب کے اشکوں سے سنورتے کب ہیں
فاروق شمیم