سلسلہ جنباں اک تنہا سے روح کسی تنہا کی تھی
ایک آواز ابھی آئی تھی وہ آواز ہوا کی تھی
بے دنیائی نے اس دل کی اور بھی دنیا دار کیا
دل پر ایسی ٹوٹی دنیا ترک ذرا دنیا کی تھی
اپنے اندر ہنستا ہوں میں اور بہت شرماتا ہوں
خون بھی تھوکا سچ مچ تھوکا اور یہ سب چالاکی تھی
اپنے آپ سے جب میں گیا ہوں تب کی روایت سنتا ہوں
آ کر کتنے دن تک اس کی یاد مجھے پوچھا کی تھی
ہوں سودائی سودائی سا جب سے میں نے جانا ہے
طے وہ راہ سر سودائی میں نے بے سودا کی تھی
گرد تھی بیگانہ گردی کی جو تھی نگہ میری تاہم
جب بھی کوئی صورت بچھڑی آنکھوں میں نم ناکی تھی
ہے یہ قصہ کتنا اچھا پر میں اچھا سمجھوں تو
ایک تھا کوئی جس نے یک دم یہ دنیا پیدا کی تھی
غزل
سلسلہ جنباں اک تنہا سے روح کسی تنہا کی تھی
جون ایلیا