سینے کا بوجھ اشکوں میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ
پتھر کو موج خوں میں پگھلتے ہوئے بھی دیکھ
ہاتھوں میں اپنے وقت کی تلوار کو سنبھال
پھر زخم کھا کے مجھ کو سنبھلتے ہوئے بھی دیکھ
آنکھوں کے آئینوں سے ہٹا آنسوؤں کی برف
اور مجھ کو اپنی آگ میں جلتے ہوئے بھی دیکھ
پہلی نظر میں کر نہ کسی نقش پر یقیں
لوگوں کو اپنی شکل بدلتے ہوئے بھی دیکھ
کب تک پھرے گا شہر میں پرچھائیوں کے ساتھ
سورج کو اس گلی سے نکلتے ہوئے بھی دیکھ

غزل
سینے کا بوجھ اشکوں میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ
ممتاز راشد