EN हिंदी
سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا | شیح شیری
sina-o-dil hasraton se chha gaya

غزل

سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا

خواجہ میر دردؔ

;

سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا
بس ہجوم یاس جی گھبرا گیا

تجھ سے کچھ دیکھا نہ ہم نے جز جفا
پر وہ کیا کچھ ہے کہ جی کو بھا گیا

کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں مری
جی میں یہ کس کا تصور آ گیا

میں تو کچھ ظاہر نہ کی تھی جی کی بات
پر مری نظروں کے ڈھب سے پا گیا

پی گئی کتنوں کا لوہو تیری یاد
غم ترا کتنے کلیجے کھا گیا

مٹ گئی تھی اس کے جی سے تو جھچک
دردؔ کچھ کچھ بک کے تو چونکا گیا