سینۂ سنگ میں ڈھونڈھتا ہے گداز
دے خدا دل کو اک اور عمر دراز
ہم دکھانا بھی چاہیں اگر کچھ کو کچھ
آئنوں سے کریں کس طرح ساز باز
اک طرف خواب ہے اک طرف زندگی
دیکھیے کون ہوتا ہے اب سرفراز
تیرے غم سے ملی دل کو وہ زندگی
تجھ سے بھی کر دیا ہے ہمیں بے نیاز
اس طرح میری آنکھوں سے آنسو بہے
بے وضو ہی ادا ہو گئی ہر نماز
روبرو اس کے دل ہی کو لے کر چلیں
بہہ چلے گا تو خوں بج اٹھے گا تو ساز
یہ جھکے یا کٹے بس ترے واسطے
میرے کاندھوں کو دے وہ سر امتیاز
ان سے بھی دل کو اسرارؔ کیسے کہیں
راز کو تو بہ ہر حال رکھنا ہے راز
غزل
سینۂ سنگ میں ڈھونڈھتا ہے گداز
اسرارالحق اسرار