شوخی سے کشمکش نہیں اچھی حجاب کی
کھل جائے گی گرہ ترے بند نقاب کی
شیشے کھلے نہیں ابھی ساغر چلے نہیں
اڑنے لگی پری کی طرح بو شراب کی
دو دن کی زندگی پہ الٰہی یہ غفلتیں
آنکھیں تو ہیں کھلی ہوئی حالت ہے خواب کی
ہوتے ہی صبح وصل کی شب دیکھتا ہوں کیا
تلوار بن گئی ہے کرن آفتاب کی
آتا نہیں کسی پہ دل بد گماں عزیزؔ
جمتی نہیں کسی پہ نظر انتخاب کی
غزل
شوخی سے کشمکش نہیں اچھی حجاب کی
عزیز حیدرآبادی