شعلہ شمیم زلف سے آگے بڑھا نہیں
صحرا کی جلتی ریت میں ٹھنڈی ہوا نہیں
پیلے بدن میں نیلی رگیں سرد ہو گئیں
خوں برف ہو گیا ہے کوئی راستہ نہیں
اس کے مکاں کی چھت پہ سلگنے لگی ہے دھوپ
کمرے سے اپنے رات کا ڈیرا اٹھا نہیں
بادل لپٹ کے سو گئے سورج کے جسم سے
دریا کے گھر میں آج بھی چولہا جلا نہیں
خاموش کیوں کھڑے ہو مزاروں کے شہر میں
بے جان پتھروں نے تو کچھ بھی کہا نہیں

غزل
شعلہ شمیم زلف سے آگے بڑھا نہیں
رشید افروز