شکوے ترے حضور کئے جا رہا ہوں میں
جو کچھ بھی ہو قصور کئے جا رہا ہوں میں
وہم تعینات کا انجام دیکھنا
نزدیکیوں کو دور کئے جا رہا ہوں میں
محو طواف کوچۂ ہستی میں رحمتیں
شاید کوئی قصور کئے جا رہا ہوں میں
رکھی ہوئی ہے سنگ در یار پر جبیں
اس عجز پر غرور کیے جا رہا ہوں میں
نذر نگاہ ناز ہیں دل کی نزاکتیں
شیشے کو چور چور کیے جا رہا ہوں میں
ربط نیاز و ناز کا عالم تو دیکھنا
نادم ہیں وہ قصور کئے جا رہا ہوں میں
سوچا کبھی نہ حضرت واعظ نے یہ شکیلؔ
رندوں میں ذکر حور کیے جا رہا ہوں میں
غزل
شکوے ترے حضور کئے جا رہا ہوں میں
شکیل بدایونی