شکوہ اس کا تو نہیں ہے جو کرم چھوڑ دیا
ہے ستم یہ کہ ستم گر نے ستم چھوڑ دیا
لے گیا چھین کوئی سب سر و سامان حیات
ہاں مگر ایک سلگتا ہوا غم چھوڑ دیا
لگ گئی ان کو بھی شاید ترے کوچے کی ہوا
مے کدہ رند نے زاہد نے حرم چھوڑ دیا
ہائے اس رہ رو برباد کی منزل اے دوست
جس نے گھبرا کے ترا نقش قدم چھوڑ دیا

غزل
شکوہ اس کا تو نہیں ہے جو کرم چھوڑ دیا
اختر مسلمی