شکست کھا کے بھی کب حوصلے ہیں کم میرے
مرے کٹے ہوئے ہاتھوں میں ہیں علم میرے
پناہ گاہ مجھے بھی تو ثور جیسی دے
مری تلاش میں دشمن ہیں تازہ دم میرے
تجھے میں کیسے بتاؤں کہاں سے کیسا ہوں
الجھ رہے ہیں بدستور پیچ و خم میرے
کس آسمان کی وسعت تلاش کرتے ہوئے
زمیں سے دور نکل آئے ہیں قدم میرے
تو یہ سوال بھی اب دجلہ و فرات سے پوچھ
میں کیا بتاؤں کہاں لٹ گئے حرم میرے
جمی رہی ہے چٹانوں پہ برف صدیوں تک
تو جا کے پھر کہیں پتھر ہوئے ہیں نم میرے
غزل
شکست کھا کے بھی کب حوصلے ہیں کم میرے
افضل گوہر راؤ